خصوصی انٹرویو: مولانا محمد افروز قادری چریا کوٹی

ابتدائی تعارف

مولانا محمد افروز قادری چریا کوٹی اُن اہلِ علم میں سے ہیں جن کے قلم میں علم کی روشنی، تحقیق کی گہرائی، اور فکر کی وسعت نظر آتی ہے۔ ان کی تصانیف میں دین کی بصیرت بھی ہے اور زمانے کا شعور بھی۔ ایسے علما کی ضرورت ہر دور کو رہتی ہے جو علم کو فقط روایتی سانچوں میں نہ دیکھیں بلکہ اس کی روح کو بھی سمجھیں اور پھر دوسروں کو سمجھانے کا مومنانہ جتن فرمائیں۔

سوانحی پس منظر اور فکری ارتقاء

1.حضرت! سب سے پہلے ہم آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کے علمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا؟

میرا علمی سفر اپنے تاریخی ومعروف خطے دارالعلم چریاکوٹ کے ایک نامور مدرسہ ’’دارالعلوم قادریہ‘‘ اور ایک ہمہ جہت شخصیت مفکر اسلام علامہ محمد عبدالمبین نعمانی قادری دامت فیوضہم کی سرپرستی ونگہداشت سے شروع ہوا، پھر جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی، شبلی کالج اعظم گڑھ، اور مرکز الثقافۃ السنیۃ کیرالا جیسے اداروں سے جرعۂ فیض ونور  لیتا رہا، ہنوز سلسلۂ تعلیم جاری ہے، کبھی فارغ عنِ التحصیل نہیں ہوا،کوشش ہوتی ہے کہ خود کو فارغ للتحصیل  رکھوں؛ کیوں کہ تاحیات طالب علم بنے رہنے ہی میں خیر و امان  ہے، اور یہی ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا فرمان عظمت نشان سے بھی مستفاد ہے: من ظن أنہ یستغنی عن التعلیم فلیبک علی نفسہ۔ یعنی جو شخص زندگی کے کسی موڑ پر خود کو فارغ عن التحصیل سمجھ لے، تو مانو اب اس کے لیے نوحہ وماتم کا در وا ہوچکا ہے!۔

ساتھ ہی ایک دردِ دل بھی سن لیں کہ درس نظامی کی تکمیل پر طلبۂ مدارس کو جب ’’فارغ التحصیل‘‘ کا خطاب دیا جاتاہے یا بچے خود کو فارغ التحصیل کہتے ہیں تو میں ڈر سا جاتا ہوں کہ کہیں یہ طلبہ خود کوتحصیل ہی سے فارغ نہ سمجھ بیٹھیں؛ کیوں کہ انھیں درحقیقت تحصیل سے فراغت نہیں ملی ہے بلکہ درسِ نظامی کی تکمیل کا بس ایک پڑاؤ پورا ہوا ہے، جہاں انھیں علوم و فنون کے اُصول و فروع سے آشنا کردیا گیاہے، اب اسی پر قناعت کرکے بیٹھ رہنا یہ فرہادانِ علم کا کام نہیں بلکہ ان کی روشنی میں انھیں تحصیل مزید کے کمربستہ ہوجانا ہے، اور یہ تحصیل مستند تدریس پر بیٹھ کر بھی جاری رکھی جاسکتی ہے اور مزید تعلیمی سفر کے دوران بھی۔ لیکن پھر جب میں نو فارغ طلبہ کو لایعنی وعبث کاموں میں سرگرداں، حال ومستقبل سے بے پروا اور سوشل میڈیا کی بےہنگم سرگرمیوں میں ملوث دیکھتا ہوں تو  میرا وہ ڈر یقین میں بدل جاتاہے کہ واقعی بچے اب ’’فارغ‘‘ ہوچکے ہیں۔لہٰذا اس خطاب پہ غور ہونا چاہیے یااس کی حکیمانہ تشریح طلبہ کے حاشیہ ذہن میں بٹھا دیناچاہیے۔

ویسے بھی ایک مومن کی زندگی میں کوئی لمحہ ’’فراغت‘‘ کا نہیں ہوتا۔ یہ بات  استشہاداً قرآنی آیت فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ  صاحب لولاک پیغمبرآخرالزماں ﷺ کے لیے کہاجارہا ہے کہ جب آپ دعوت وتبلیغ کے کاژ سے فارغ ہوجایاکریں تو یکسو ہوکر اپنے رب کی یاد میں لگ جایا کریں۔ گویا اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے لیے کوئی فراغت نہیں ہےبلکہ مردِمومن کی زندگی ’’جاوداں، پیہم دواں ہردم جواں ہے زندگی‘‘ کی آیئنہ دار ہونی چاہیے۔

غالباً قاضی شریح  الکندی کا واقعہ ہے جو پہلی صدی کے بزرگ ہوئے ہیں کہ عید کے دن وہ کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے جوبے تحاشا کھیل کود میں مگن تھے اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرکے بیکار وقت ضائع کررہے تھے۔ آپ نے تعجب سے پوچھا: تم لوگ کب سے کھیل رہے ہو؟ اور سارا وقت اُچھل کود میں کیوں گنوا رہے ہو؟۔ بولے! آپ کو پتا نہیں، آج عید کادن ہے، ’فارغ‘ تھے، کوئی کام نہ تھا توسوچا کہ کچھ کھیل کود ہی کرلیں، خالی وقت کسی نہ کسی طور تو گزارنا ہی ہے!۔ ان کا یہ جواب سن کر آپ نے اظہارِتاسف کرتے ہوئے بڑی پیاری بات فرمائی کہ کیا فارغ وقت ایسے ہی گزارا جاتاہے۔ یاد رکھنا مسلمانوں کی زندگی میں کوئی فراغت کا دن نہیں ہے اور پھر اسلام نے خالی وقت گزارنے کا جو تصور دیاہے وہ تو کچھ اور ہی ہے!، پھر آپ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی : فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ۔

  1. کیا آپ کے خاندان یا علاقے میں علم و تحقیق کی کوئی خاص روایت موجود تھی جس نے آپ کو تحریک دی؟نیز

تحقیق اور تصنیف کی طرف آپ کے رجحان نے کیسے جنم لیا؟ کیا کوئی خاص واقعہ یا شخصیت تھی جس نے آپ کو متاثر کیا؟

جی بحمداللہ! میرا مردم خیز اور معارف پرور علاقہ چریاکوٹ صدیوں سے منبع فضل ودانش، گہوارۂ  علوم وفنون اور رشکِ یونان و روما رہا ہے۔ کوئی سات صدیوں تک بلاانقطاع اساطین  ِچریا کوٹ نے زلفِ علم وکمال کی مشاطگی کا ذمہ دارانہ  فریضہ انجام دیا ہے اور ان کے نصاب وتدریس کی بوقلمونیت کے باعث دیار وامصار کے علمی وفکری بھاگ جاگ جاگ اٹھے ہیں۔ غرضیکہ اس سرزمین نے جن شخصیتوں کو جنم دیا اور اس خاکِ علم پرور نے جن افراد کی پرورش کی، وہ آسمانِ علم و دانش کے درخشاں ستارے بن کر چمکے اور ان کا طائر شہرت فضاے بسیط کی انتہائی رفعتوں پر پہنچا۔ ملک وملت کی نامور شخصیات اس خطے کی قصیدہ گو رہی ہیں جن میں بیرسٹر سر آفتاب احمد خان [وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]،سیدسر رأس مسعود [وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]، شاعرمشرق، قلندرِ لاہوری علامہ ڈاکٹر اِقبال، مجاہد آزادی مولوی اِقبال احمدخان سہؔیل اعظمی، شیخ محمد اِکرام اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اَیوب قادری، پاکستان وغیرہ کو بطورخاص پیش کیاجاسکتاہے۔

یوں ہی خوانِ چریاکوٹ سے خوشہ چینی کرنے والے مشاہیر کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، صرف علامہ فاروق چریاکوٹی سے شرفِ تلمذ و استفادہ  رکھنے والوں میں سے بعض کے اسمایہ ہیں:  علامہ شبلی نعمانی، مولانا حمیدی الدین فراہی، سید سلیمان ندوی،مولانا عبدالاحد شمشاؔد فرنگی محلّی (لکھنوی)، مولانا جواد بہاری،اکبر الہ آبادی، مولانا عبد الباری فرنگی محلّی، مولانا جمال الدین افغانی، جسٹس محمود احمد بن سرسیداحمدخان، جسٹس سرشاہ محمدسلیمان،جسٹس سرسیدعبد الرؤف،مولانا عظمت  اللہ فرنگی محلّی، مولانا عزت اللہ فرنگی محلّی، شاہ سلیمان پھلواروی، عبد الوہاب بہاری منطقی، مولانا عثمان فلسفی، مولانا احمد حسن کان پوری، علامہ اقبال سہیل، اور آزادی کے بطل جلیل ڈاکٹر مختاراحمد انصاری وغیرہ۔

میرے خاندان میں تو کوئی ایسا علمی غلغہ نہیں رہا ہے، گویا میں  ایک خزاں دیدہ اور ناآشناے بہارخانوادے کا خزف ریزہ ہوں، تاہم عہد صبا ہی سے خطے کی علمی عظمت وتفوق کے نشان ذہن وفکر پر نقش تھے اور اس کی مٹتی ہوئی تاریخ کے احیا کا عزم دل میں رکھتا تھا، والدین نے بھی جب میرے رجحان کو دیکھا تو   مجھے راہِ علم کا مسافربنادیا، اور پھر میں بے تکان جادہ پیمائی کرتا ہوا اس مقام تک پہنچا کہ بحمداللہ چریاکوٹ اور علماے  چریاکوٹ کی ایک مبسوط ومستندتاریخ قلم بند کرنے میں کامیاب ہوا ، ہرچندکہ وہ ابھی نامطبوع ہے؛ تاہم عہدِطفولیت کے دیکھے  ہوئے خواب کی یوں تعبیرپا کر  یک گونہ خوشی کے احساس سے دل جھوم جاتاہے؛ کیوں کہ یہ ایک بہت بڑا علمی وتحقیقی قرض و فرض تھاجس کی توفیق مجھ کم سواد کو ارزانی ہوئی۔بہرحال! یہی داخلی تحریک میرے لیے تحصیل علم کا باعث اور وسیلۂ تعلیم وتحقیق بنی۔

  1. پہلی کتاب لکھنے کا تجربہ کیسا رہا؟ اور اس وقت آپ کے ذہن میں کیا خواب تھے؟

جیسا کہ عرض کیاگیا کہ خطہ چریاکوٹ سے اٹھنے کے باعث علم وتحقیق تو گویا فقیر کے خمیر میں پڑے ہوئے تھے۔ اولین تصنیف کا معاملہ یہ بنا کہ غالباً ۲۰۰۰ ء میں جامعہ امام احمدرضا، رتناگیری، کوکن میں ایک استاد کی ضرورت تھی، تو مرشد گرامی حضرت علامہ محمد عبدالمبین نعمانی صاحب کی تحریک پر میں تدریس کے لیے وہاں پہنچا۔ حسن اتفاق کہ تدریس کے لیے میری یہ پوسٹنگ بھی اولین ہی تھی، اور پھر میرے دوایک دوست بھی وہاں مسندتدریس سنبھالے ہوئے تھے، یوں ایک اچھا ماحول مجھے پہلے دن ہی سے میسر آیا۔

امرواقعہ یہ ہوا کہ وہاں جامعہ کے اطراف میں غیروں کا خاصا تسلط ہے اور ان کے بڑے بڑے مدارس بیرونی فنڈنگ پر خوب پھل پھول رہے ہیں۔ وہ لوگ اعلیٰ حضرت کے اعلیٰ درجے کے گستاخ اور عقائد ومعمولاتِ اہل سنت کے ٹھیک اُلٹ تھے اور فطرت کا یہ اصول ہے کہ جب بے باکانہ  جسارت اور گستاخانہ جرثومےکسی کے اندر جڑ پکڑ لیں تو بات کافی آگے تک جاپہنچتی ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کےایک مولوی نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شان میں اپنے ایک کتابچے کے اندر بڑا گھٹیا قسم کا الزام لگایا بلکہ وہی منافقین مدینہ کی بولی دہرائی، جس نے نہ صرف جماعت صحابہ بلکہ سیدکائناتﷺ کے قلب اطہر کو بھی زخمی کردیا تھا۔

تو اس کے جواب کے لیے     مجھے میدان میں اترنا پڑا اور میں نے کم عمری ہی میں اولین کتاب ’’چندلمحے اُم المومنین کی آغوش میں‘‘ تصنیف کی، جس میں حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کے محاسن و مفاخرومحامد کے ساتھ مسئلہ افک کی توجیہ و توضیح قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بحمداللہ یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ  اُدھر سے کوئی جواب نہ آیا اور پھر مجھے بھی اندر سے قوت ملی، تصنیفی اعتماد بحال ہوا اور فیضانِ قلم کی ایسی برکتیں نصیب ہوئیں کہ آج تک وہ سلسلۂ فیض ونور اللہ ورسول کی عنایتوں سے رواں دواں ہے۔

تحقیق، تصنیف اور علمی نظریات

  1. آپ کے نزدیک تحقیق کی اصل روح کیا ہے؟ نیز حوالہ جات کی بہتات اور فہم کی گہرائی سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

محققین نے حقائق کی بازیافت کو مقاصد تحقیق میں سرفہرست رکھاہے۔گویا تحقیق  حقائق کا انکشاف کرتی ہے اورنئی نئی حقیقتتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں۔ نیز تحقیق انسانی ذہن کو تلاش و جستجو کے نئے نئے گوشوں سے بھی ہمکنار کرتی ہے جس کی برکت سے علم و فن کی نئی راہیں کھل کر  سامنے آتی ہیں؛ گویاتحقیق کا مقصد صرف جوابات تلاش کرنا ہی نہیں، بلکہ سوالات کی بنیاد پر نیا فہم یا نظریہ تشکیل دینا بھی ہے۔یوں خلاصۃً کہاجاسکتاہے کہ تحقیق کی اصل روح انسان کے تجسس، علم کی جستجو اور حقیقت کی بہتر تفہیم میں مضمر ہوتی ہے۔

حوالہ جات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم  ہے؛ تاہم اس کی بہتات سے قارئین پر رعب طاری کرنا قرین انصاف نہیں، جیسا کہ آجکل عموما نوآموز قلم کاروں کے نوشتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ حوالہ جات کی بہتات سے بات نہیں بنتی بلکہ حوالہ جات کا پایۂ استناد دیکھا جاتا ہے۔ بسااوقات کوئی ایک حوالہ ایسا جاندار ہوتا ہے کہ وہ درجنوں حوالوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور کبھی درجنوں حوالے بھی کسی مقدمے کی ثقاہت کا بھرم نہیں رکھ پاتے!۔

جہاں تک بات فہم کی گہرائی کی ہے تو اس کا اپنا ہی ایک لیول ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جسے اس بحر کی شناوری نصیبب ہوجاتی ہے اس پر حقائق کے بند در وا  کردیے جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے معارف وبصائر سے صدیوں کے نصیب جگا جاتاہے۔جنھیں فہم وفراست کا نور عطا کیاگیاتھا آج ان کے افکار سے زمانے روشنی کشید کررہے ہیں اور نامعلوم منزلوں کا سراغ پارہے ہیں۔فہم کی گہرائی کی عکاسی ڈاکٹراقبال کے اس مصرع سے مترشح ہے  ع:  موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔

  1. آپ کی کون سی تصنیف آپ کے دل کے سب سے قریب ہے اور کیوں؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ مصنف کی کتابیں اس کی اپنی اولاد کی مانند ہوتی ہیں۔ عربی کا مشہور محاورہ ہے: تصانیف المصنف أولادہ المخلد۔ یعنی ایک مصنف کی کتابیں اس کی ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی اولاد کی مانند ہوتی ہیں ۔ کیوں کہ جسمانی اولاد سے تو بمشکل دو چند پشتوں  تک ہی نام چل پاتا ہے، پھر سب نسیامنسیا اور ہباءمنثورا ہوکررہ جاتا ہے،  جب کہ کتابیں مصنف کے نام و کام کو ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کر جاتی ہیں۔ خاقانیِ ہند جناب ابراہیم ذوق دہلوی نے ٹھیک ہی کہاتھا   ؎

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ

اولاد سے تو بس یہی دوپشت چار پشتـ

یہاں آپ ’سخن‘ کی جگہ ’کتب‘ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وزن بھی سلامت اور بات بھی باکرامت!۔

تو بات یہ چل رہی تھی کہ مصنف کی کتابیں اس کی اولاد کی مانند ہوتی ہیں اور کسی بھی منصف باپ کے لیے اپنی اولاد کے درمیان تفریق روا نہیں!۔ اس لیے آپ کے اس سوال نے میرے فیصلے کے ریشم کو الجھا کر رکھ دیا ہے کہ اپنی تصانیف میں سے ’’میں کس کو ترک کروں کس کا انتخاب کروں‘‘۔ بہرحال! میں نے ہر کتاب دل سے لکھی ہے، دل کی آواز پر لکھی ہے  اور ملت کا دردِ دل کو محسوس کرتے ہوئے لکھی ہے؛ اسی لیے میری تحریروں میں کچھ آپ کو دلگیر سی لگیں  گی، کچھ دل آویزمحسوس ہوں گی اور کچھ دل سوزنظر آئیں گی۔ تاہم حالیہ دنوں شائع شدہ کتاب قاموس الخواتین اپنی کمیت وکیفیت کے اعتبار سے نہ صرف میرے بلکہ بہتوں کے دل سے قریب ہے؛ حتیٰ کہ اس نے اپنوں سے زیادہ غیروں کے دل میں جگہ بنایا ہے اور انھوں نے اپنے تحریری تبصرہ وتاثرات میں اس حقیقت کا کھلے بندوں اعتراف وانکشاف بھی کیا ہے۔  

  1. کیا آپ سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں دینی تحقیق اب بھی تقلید میں جکڑی ہوئی ہے یا نئے افق کھل رہے ہیں؟

دینی تحقیق میں تقلید ہی چلتی ہے؛ کیوں کہ ہم مقلدانہ روایتوں کے امین ہیں۔ مجتہدین اسلام کے ذریعہ پہلے سے متعین فقہی آرااور کلامی نظریات سے بلاوجہ روگردانی ہمارے لیے روانہیں۔ہاں حالاتِ زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے خیرخواہی امت کے جذبے کے تحت بعض مسائل میں سہولیات و مراعات فراہم کرنے کا عمل ہر دور کے محققین اسلام نے انجام دیا ہے۔

تاہم دینی تحقیق کے نام پر نئے افق کی بازیافت کرنے والے جدیدیت کے بعض علم برداروں سے اللہ کی پناہ، جنھوں نے دین کو بازیچہ اطفال بنا رکھاہے اور ان کے انتاجات کو دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ وہ دین کے مبادیات سے بھی ناآشنا ہیں اور اپنے فرسودہ افکار سے اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی سعی مذموم کیے جارہے ہیں۔

لیکن اگر اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ دینی کتب وتحقیق کونئی تب وتاب کے ساتھ پیش کرنا  اورعصری تقاضوں سے ہم آہنگی،  تو معاف کیجیے گا  کہ اس حوالے سے ہمارے یہاں ٹھیک ٹھاک جمود ہے؛ تاہم ہندستان کے مقابلے میں ہمسائے ملک نے اس تعلق سے خاصی کروٹ لی  ہے، اور جدید تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے اس نے نئے نئےآفاق کی تسخیر کی ہے۔ بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کا طریقہؐ کار ہم سے کافی مختلف ہے، اور وہاں آج بھی مصنفین ومحققین کی شاندار مالی ومعاشی سرپرستی کی جاتی ہے اور پورے طور پر انھیں فارغ البال کرکے تحقیق وتصنیف کے لیے آزاد چھوڑ دیاجاتاہے، جس سے نتیجے میں معرکۃ الآرا کتابیں اور مجلدات پر مشتمل علمی وتحقیقی کارنامے منصہ شہود پر جلوہ بار ہوتے ہیں۔ بلکہ چند سال قبل میں نے ’’ تقسیم وطن کے بعد  ہندوپاک میں علمی و تحقیقی کاموں کا تناسب ‘‘ کے عنوان سے فنون وار  ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا تھا، جس میں  بہت سے تلخ حقائق کا انکشاف کیا گیا تھا، لیکن کسی مصلحت سے انھیں طباعت کی راہ سے میں نے نہیں گزارا۔ 

  1. کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے آپ کن اصولوں یا زاویوں کو لازم سمجھتے ہیں؟

ظاہر ہے تحقیق کی جان ہی اصولوں میں ہوتی ہے۔ تو تحقیق کے جو اصول وضوابط اہل فن نے مقرر کیے ہیں وہ کسی بھی موضوع پر تحقیق کے لیے لازمے کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے صرفِ نظر کرکے حق تحقیق کی ادائیگی نہیں ہوسکتی۔ وہی تحقیقات آگے چل کر ماخذ کا درجہ پاتی ہیں جن میں ان تحقیقی اصولوں کو برتا جاتاہے۔ اس لیے میرے اصول بھی وہی ہیں اور ہرمحقق کو انھیں اصولوں اور زاویوں کومدنظررکھ کر اپنا تحقیقی سفر جاری رکھنا چاہیے۔ تحقیق کے اصول تفصیل سے کتابوں میں مندرج ہیں وہاں دیکھ لینا چاہیے، یہاں ان کی تفصیل باعثِ تطویل ہوگی۔تاہم کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے مقدمات کی تنقیح، اصل ماخذ کی طرف رجوع، مختلف آرا کا مطالعہ،عصری تناظر، تنقیدی نظراور تحریری دیانت داری وغیرہ بطورِ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔

دین، زمانہ اور عقلی مکالمہ

  1. آج کے زمانے میں دینی فکر اور عقلی مکالمہ (intellectual discourse) کے درمیان پل بنانے کی کیا ضرورت ہے؟

اسلام دین فطرت ہے اور ا س کے اوامر واحکامات عقل انسانی کے قطعاً منافی نہیں۔ اس لیے  ہر دور میں دین کی تبلیغ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر کی گئی ہے اور اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔کیوں کہ قرآنی تعلیمات سے یہ بات مترشح ہے کہ دین کی دعوت میں جب حکیمانہ پہلووں کو مد نظر رکھا جائے گااور ناصحانہ اسلوب کو بروے کار لایا جائے گا تو وہ تبلیغ موثر بھی ہوگی اور عقل انسانی کوبھی اپیل کرے گی۔اور پھر قرآن نے بار بار عالم انسانیت کوتعقل، تدبر، تفکر، اور فہم کی دعوت دی ہے۔ گویا دینی روح میں خود عقل کا استعمال بنیادی چیز ہے۔ اگر دینی فکر محض تقلیدی انداز میں پیش کی جائے اور عقل کی زبان میں گفتگو نہ کی جائے، تو وہ اپنے آپ کو وقت کے بدلتے چیلنجز کے مقابلے میں کمزور کر دیتی ہے۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ عقل کے ساتھ رشتہ قائم رکھ کر دین کی اَبدیت اور آفاقیت کو زیادہ مؤثر انداز میں ظاہر کیا جا سکتا ہے!۔ حقائق بتاتے ہیں کہ آج کا نوجوان سادہ روایتی بیانات سے مطمئن نہیں ہوپاتا، وہ کسی بھی موضوع پر دلیل، سوال، منطق اور تحقیق چاہتا ہے۔ یوں دینی فکر کو عقل کے ساتھ جوڑ کر ہی نئی نسل کے دلوں میں دین کی محبت اور فکری عظمت پیدا کی جا سکتی ہے۔

دنیا بھر میں علمی و فکری مکالمے کا معیار بہت بلند ہو چکا ہے۔ اگر محققین اسلام اور علماے ربانیین دینی موضوعات کو معاصر فکری زبان میں بیان نہ کریں، تو وہ عالمی سطح پر علم کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس لیے پچھلے ادوار کے مقابلے میں عصر حاضر میں عقلی مکالمے کی اہمیت مزید دوآتشہ ہوجاتی ہے ، اور مبلغین ودعاۃکے کاندھے پر پڑی ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے؛ کیوں کہ اِس زمانے میں دینی تعلیم سے برگشتہ اور انوارِ علم سے محروم لوگ محض عقلی طور پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش میں ٹھوکر پر ٹھوکر کھائے جارہے ہیں اور پھر اسی کو دین سمجھ کر دوسروں پر تھوپنے کی کوشش میں غلطاں وپیچاں  ہیں، جس کے نتیجے میں جہالت وگمراہی پروان چڑھ رہی ہے، دین بیزاری عام ہورہی ہے، علم دین کا کھلے بندوں مذاق بن رہا ہے اور اصل تعلیم اسلام پس پردہ چلی جارہی ہے۔ الغرض! آج کے زمانے میں دین کو  دلیل، حکمت، اور بڑی محبت کے ساتھ پیش کرنا ہوگا،تب ہی ہم دینی فکر کو زندہ، عقل سے جڑا ہوا اور آنے والی نسلوں کے لیے متاثرکن بنا سکیں گے۔ اس لیے مفکرین اسلام اور داعیانِ دین کو چاہیے کہ وہ جدید ذہنوں کو حکمت عملی کے ساتھ دین کے قریب کرنے کی مومنانہ مساعی فرمائیں، شرعِ مطہر کی معقول توجیہات پیش کریں اور ہر قسم کے شکوک وشبہات کو رفع کرکے دین کا صحیح چہرہ دنیا کے سامنے لائیں اور یہی اس دور کی حقیقی تبلیغ ہوگی۔

  1. کیا مدارس میں عقلی و فلسفیانہ مباحث کو شامل کیا جانا چاہیے یا یہ روایتی دینی سانچوں سے متصادم ہیں؟

جی بالکل! عقلی وفلسفیانہ مباحث کی مدارس میں شمولیت ضروری ہے بلکہ وہ شاملِ نصاب بھی ہیں، اور روایتی دینی سانچے سے ان کا کوئی تصادم بھی نہیں، یعنی عقلی وفلسفیانہ مباحث  کبھی روایتی دینی ڈھانچوں سے متصادم نہیں رہے بلکہ اگر یہ کام سمجھ داری، معقولیت اور حکمت وبصیرت سے کیا جائے تو یہ خود دینی روایت کو زیادہ گہرا، زیادہ مستحکم اور زیادہ بامعنی بنا سکتا ہے؛ کیوں کہ فلسفیانہ مباحث دینی فکر کو گہرائی و گیرائی عطاکرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہ چیزیں ہمیں ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دے رہی ہیں، اور ہماری قدیم اسلامی درس گاہیں فلسفہ، منطق، علم الکلام، فلکیات، طبیعیات اور ہیئت و مرایا  حتیٰ کہ ریاضی تک کے فنون پڑھاتی رہی ہیں۔اور ہمارے اکابرومشاہیر جہاں حاویِ فروع واصول  رہے وہیں ماہرمعقول ومنقول بھی رہے؛ اسی لیے کہا گیا ہے کہ  منطقی وفلسفی مباحث سے ذہن وفکر کو قوتِ پرواز ملتی ہے اور استدلال کا ملکہ انسان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن چوں کہ دین کے تئیں اخلاص اور علم کے تئیں للہیت کے اُس جذبۂ دوشیں کے فقدان اور دونوں کے درمیان توازن قائم  رکھ پانے کی عدم قابلیت نے ہمیں آج وہ دن دکھایا ہے کہ ہمیں عقلی وفسلفیانہ مباحث روایتی دینی سانچوں سے متصادم نظر آنے لگے ہیں، جس کے لیے ہمیں آج قدیم صالح اور جدید نافع کی اصطلاح وضع کرنی پڑی۔ لیکن اب چوں کہ طلبہ کے طبائع میں پہلوں کی سی جولانیت، خدمت دین کا اکابرانہ جذبہ اور دعوت وتبلیغ  کی مومنانہ عزیمت مدھم سی پڑ گئی ہے؛ اس لیے ان مباحث کی شمولیت عصرحاصر میں بہرحال ایک سوالیہ نشان اور بڑا ہی نازک مرحلہ ہے، جس پر ارباب حل وعقد کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ غرضیکہ فلسفہ اور عقلی مباحث کسی بھی طرح دین کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ درحقیقت دین کے قلعے کو مزید مضبوط کرنے والے برج ہیں، بشرطیکہ انہیں حکمت، توازن، اور دینی مرکزیت کے ساتھ اپنایا جائے۔

  1. کیا آپ کے خیال میں دینی حلقے جدید فلسفے، سوشل سائنسز اور عالمی سیاسی افکار سے متعلق کوئی مؤثر بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں؟

بظاہر تو ایسا  کچھ نظر نہیں آرہا ہے کہ مجموعی طور پر  دینی حلقے ابھی تک جدید فلسفے، سوشل سائنسز اور عالمی سیاسی افکار کے مقابلے میں کوئی مربوط اور مؤثر بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب  ہو سکے ہوں ، یا ممکن ہے ایسا کچھ ہورہا ہو  لیکن  مجھے نظر نہ آرہا ہو، اور خدا کرے ایسا ہی ہو۔ تاہم یہ چیزیں ملت کی بقا وکمال اور اُمت کے عروج و اقبال کے لیے ناگزیر ہیں۔ آج اُمت مسلمہ جس زبوں حالی کے دور سے گزر رہی ہے، قومی وبین الاقوامی سطح پر اہل اسلام کو جن مسائل گونا گوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اور  دین مصطفوی پر جس طرح سے یلغاریں ہورہی ہیں ان سارے چیلنچیز سے نمٹنے کے لیے دینی حلقوں کا  جدید فلسفے، سوشل سائنسز اور عالمی سیاسی افکار سے متعلق کوئی موثر بیانیہ تشکیل دینا وقت کا اولین فریضہ ہے۔ اور بدقسمتی سے جو لوگ خود کو جدید فلسفے کا علم بردار سمجھے بیٹھے ہیں، یا سوشل میڈیا پر اپنا ایک حلقۂ اثر قائم کیے ہوئے ہیں اور خود کو عالمی اسلامی مفکرین کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں وہ وہی ہیں جو  امت مسلمہ کو مسائلِ گوناگوں سے نجات تو نہ دلا سکے، ہاں داخلی وخارجی بہت سے مسائل سے اُمت کو دوچار ضرور کردیا ہے، یا بلفظ دیگر انھوں  نے اسلام کو فکروں سے آزاد کم کیا ہے اور فکرمند زیادہ بنا دیا ہے، یہ اس قسم کے مفکرین ہیں!۔ بہرحال! دینی حلقے کا  اسلام مخالف تحریکوں کے خلاف ہمہ جہتی مسائل سے نبردآزماہونے کے لیے حرکت میں آنا نہایت ضروری ہے۔

شخصیت، طرزِ مطالعہ اور فکر  کا دائرہ

  1. آپ کا مطالعے کا معمول کیسا ہے؟ کس طرح آپ وقت کو تقسیم کرتے ہیں؟

عہد طالب علمی میں اور پھر چند سال قبل تک فقیرقادری کے مطالعے کا معمول بڑا منظم ومستحکم تھا، وقت کی تنظیم وتقسیم بھی خوب تھی، جس کی برکت سے بہت سے علمی وفکری کام آگے بڑھے اور تصنیفات کا سلسلہ قائم رہا؛ لیکن ادھر چند سالوں سے قومی وبین الاقوامی اسفار کا سلسلہ شروع ہوا اور زمینی طور پر کچھ مدارس وعلمی مراکز کے قیام وغیرہ میں مشغولیت بڑھی تو پھر طومارِ کار اور کثرتِ افکار کے باعث مطالعے کا معمول بھی متاثر ہوا ہے، تصنیف وتالیف کا کام بھی کچھ سرد سا پڑ گیا ہےاور وقت کی تقسیم بھی بکھر کر  رہ گئی ہے۔ تاہم یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ طلبہ واساتذہ کے لیے وقت کی تقسیم اور نظام الاوقات کی بڑی ہی اہمیت  ہے اور یہ بہت ہی بابرکت عمل ہے، جو لوگ اس راز سے آشنا ہوگئے وہ انفس وآفاق کی تسخیر میں لگے ہوئے ہیں اور جن پر یہ بھید مخفی رہا ہے وہ آج بھی برگِ آوارہ کی مانند زندگی کی کربناکیوں سے دوچار ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شمال وجنوبِ ہند کی شرحِ خواندگی میں قریباً نصف فیصدی فرق ہے، یعنی جنوب ہند کے لوگ صدفیصد تعلیم یافتہ ہیں اور شمالی ہند کا معاملہ نصف فئیصدسے کچھ زائد ہے۔ اس کے دیگر عوامل میں سے ایک  اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ جنوبی ہند کے ارباب علم و دانش نے اپنے وقت کو منظم کر رکھاہے،مطالعے کو زندگی کی خوراک بنا لیا ہے اور یوں ہی ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کا ایک کام متعین کرکے انھوں نے ڈائری میں نوٹ کرلیا ہے جس سے ہر کام حسب معمول بخیر وخوبی انجام پذیر ہوتا رہتا ہے اور زندگی بڑی خوش اسلوبی سے رواں دواں رہتی ہے، جب کہ شمالی ہند کے احباب میں وقت کی تنظیم بالکل ناپید ہے، مطالعے کا معمول بھی قابل رحم  ہےاور انھوں نے نظام الاوقات کی پابندی سے خود کو پورے طور پر آزاد کرلیا ہےِ، جس کی نحوست یہ ہے کہ کوئی کام  سلیقے سے نہیں ہوپاتا اور وقت کا پہیا بے مقصد تیزی کےساتھ آگے بڑھتا چلا رہا ہے!۔ 

  1. کیا آپ کلاسیکی کتابیں زیادہ پڑھتے ہیں یا جدید تحقیقات پر بھی نگاہ رکھتے ہیں؟

کلاسیکی  کتابیں ہوں یا جدید تحقیقات پر مشتمل فن پارے، ان میں جومیرے موضوع سے متعلق  ہوتی ہیں خواہ وہ عربی وفارسی میں ہوں یا اردو وانگریزی میں، ان کا بھرپور مطالعہ کرتا ہوں، اور سفر وحضر میں انھیں ساتھ رکھتا ہوں۔ کلاسیکی کتابیں دراصل وہ بنیادیں ہیں جن پر ہماری فکری عمارت کھڑی ہے اور جن کےمطالعے سے ہماری فکرو نظریہ کو گہرائی، وسعت اور ایک خاص روحانی چمک عطا ہوتی ہے۔

ان کے ساتھ جدید تحقیقات بھی انتہائی اہم ہیں؛ کیوں کہ دنیا مسلسل تغیرپذیر ہے،نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، جدید علمی مناہج سامنے آ رہے ہیں، اورنت نئی سائنسی انتاجات و سماجی تبدیلیاں انسانی سوچ کو متاثر کرتی جا رہی ہیں؛لہٰذا ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے ساتھ جدید فلسفہ، سوشیالوجی، پولیٹیکل سائنس، اور سائنسی رویوں پر نگاہ رکھنا بھی ہمارے لیے ضروری ہے؛ تاکہ ہم اپنے دینی ورثے کو عصرجدید کی روشنی میں مؤثر انداز میں پیش کر سکیں۔ ان کے علاوہ دیگر فنون کی کتب سے بھی دلچسپی قائم ہے؛ کیوں کہ کتابیں ہماری بے ضرر ساتھی ہیں اور یہ تنہائی کی بہترین مونس وغمخوار ہیں۔ لیکن ادھر یہ سلسلہ بھی کچھ متاثر ہوا ہے، جس کے پیچھے کچھ خانگی مسائل، والدہ کی مستقل تیمار داری اورجلسہ وکانفرنس کی وقت وبے وقت شرکتیں ہیں۔

  1. فکر کی تشکیل میں مطالعے، مشاہدے اور تجربے — تینوں میں سے آپ کس کو سب سے مؤثر مانتے ہیں؟

فکر کی تشکیل میں مطالعے، مشاہدے اور تجربے تینوں کے اپنے اپنے حصے ہیں، اور تینوں میں گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک انسان کے فکر ومزاج پر اپنا  رنگ چڑھا تے ہیں؛ تاہم ان میں تاثیریت کے لحاظ سے سب سے زیادہ تجربہ کو موثر مانا گیا ہے؛ کیوں کہ تجربہ انسان کو اپنی حدود، محاسن ومعائب، اور صلاحیتوں سے آگاہ کرتا ہے اور زندگی کا ایساحقیقی فہم عطاکرتا ہے جو محض کتابوں یا مطالعہ ومشاہدہ سے حاصل نہیں ہوسکتا، ہاں! مطالعہ اور مشاہدہ تجربے میں معاون ہوتے ضرور ہوتےہیں اور ہمیں فکر کی گہرائی تک پہنچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

پھر یہ کہ لوگوں کی نفسیات وطبائع بھی کچھ الگ الگ ہیں، کوئی مطالعے سے متاثر ہوجاتاہے، کسی کو مشاہدے متاثر کردیتے ہیں اور کوئی تجربات سے اَثرپذیرہوتاہے۔ پھر اس میں عمرکا بھی فیکٹر ہوتاہے بچوں کے لیے مشاہدہ زیادہ موثر ہوتا ہے، جوانوں کے لیے مطالعہ کی تاثیر ہے اور ادھیڑ عمروں کے لیے تجربات قابل تاثیر وتاثر ہیں۔ اس لیے تینوں کی اپنی اپنی قدریں ہیں اوران کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔

  1. آپ کی شخصیت میں جو وقار اور گہرائی ہے، کیا یہ فطری ہے یا مطالعے اور خاموشی کا ثمر؟

شخصیت بھاری بھرکم لفظ ہے جو بڑوں کے لیے بولا جاتاہے، ہم تو ابھی ٹھیک سے’شخص‘ بھی نہ بن پائے ہیں۔ یوں ہی وقار اور گہرائی بھی اکابر کے لیےزیبا ہے۔ تاہم لوگ اگر ہمیں کچھ سمجھتے ہیں تو یہ محض فضل مولیٰ ہے جس نے احباب کے دلوں میں فیض عقیدت انڈیل دیا ہے۔ ہر انسان کی شخصیت میں کچھ فطری عناصر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ فطرتاً بڑے سنجیدہ اورمتین واقع ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت میں گہرائی ہوتی ہے، اور کچھ لوگوں کے اندر فطری خاموشی پائی جاتی ہے، میری طبیعت پر بھی بچپن ہی سے  خاموشی کا غلبہ رہا۔ کہاجاتاہے کہ خاموشی انسان کو خود کی پہچان دیتی ہے اور اسے اپنے اندر کی آواز سننے کا موقع فراہم کرتی ہے، جو اس کی شخصیت میں وقار اور پختگی پیدا کرنے کا ذریعہ ووسیلہ بنتا ہے۔

لیکن خاموش طبعی کے ساتھ میرا جذبہ وحوصلہ اخاذیت سے بھرپوررہا، اور کچھ نیا کرنے کی لگن نے ہردم مجھے محوپرواز رکھا؛ یہ اور بات کہ ابھی کچھ کر نہیں سکا۔ خداے جلیل وقدیر توفیق خیر سے نواز دے تو بات ہے، ورنہ تجربات، مشاہدات اور مطالعات سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ہاں! یہ بات درست ہے کہ مطالعہ کتب اور مشاہدۂ فطرت کے باعث  زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں، اوریہ عمل زندگی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔  

تصنیف کی نفسیات اور قلم کی طاقت

  1. تحریر کرتے وقت آپ کی توجہ "اسلوب” پر زیادہ ہوتی ہے یا "مفہوم” پر؟

ہرچندکہ مفہوم اوراسلوب دونوں ہی تحریر کے اہم اجزا ہیں؛ لیکن مفہوم کو اسلوب پر بایں معنی تفوق حاصل ہے کہ تحریر کا اولین مقصد ہی قاری تک ایک واضح وموثر پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر کسی کی تحریر کا مفہوم دوٹوک اور معقول نہ ہو تو اس کا قاری کے اوپر کوئی اثرمرتب نہیں ہوتا،خواہ اس کا اسلوب کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔  مفہوم ہی دراصل تحریر کی روح ہوتاہے اوریہ عنصر تحریر میں جتنا زیادہ موجود ہوتا ہے  قاری کے ذہن میں اتنا ہی اثر ڈالتا ہے اور اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔

اس لیے میرا ذاتی معاملہ یہ رہا کہ تصنیف وتالیف کے ابتدائی ایام میں زیادہ تر توجہ اسلوبِ نگارش پہ رہا کرتی تھی؛ لیکن جیسے جیسے پختگی آتی گئی، اور قلم پر گرفت مضبوط ہوتی گئی، پھرمفہوم ومقصد ہی پیش نظر رہنے لگا، اوراُسلوب کی حیثیت ثانوی ہوکر تحریر کے تابع ہوگئی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ڈرائیونگ کے ابتدائی ایام میں زیادہ تر توجہ گیر پر  مرکوز ہوتی ہے، لیکن جب کمال پیدا ہوجاتاہے تو پھر لاشعوری طور پر ازخود حسب رفتار گیر لگتے چلے جاتے ہیں اور انسان حسن فطرت اور مناظرقدرت سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے۔ الغرض!  جب تحریر کو  زیادہ مؤثر بنانا ہو تو مفہوم اور اسلوب دونوں میں توازن قائم رکھنا ایک قلم کار کے لیے ضروری ہوجاتاہے؛ کیوں کہ دونوں کے توازن وتوافق سے بہترین تخلیق ابھرکر سامنے آتی ہے۔

  1. کیا آپ کے خیال میں ہر مصنف کو زبان پر مکمل گرفت ہونی چاہیے یا خیالات کی صحت کافی ہے؟

زبان پر گرفت اور خیالات کی صحت دونوں ہی ایک قلم کار کی نگارشات کی طاقت ور بنیادیں ہیں؛ لیکن ہر ایک کا کردار مختلف ہے، تاہم یہاں بھی توازن قائم رکھنے کی صورت میں انتاجات نہایت موثر کن ہوں گے۔ تاہم ایک جہت سے دیکھا جائے تو خیالات کی صحت زیادہ اہمیت کی حامل ہے؛ کیوں کہ یہ تحریر کی حقیقت اور مقصدیت ہے؛ مگر ساتھ ہی زبان پر گرفت بھی ضروری ہے؛ تاکہ خیالات کو مؤثر طریقے سے پہنچایا جا سکے۔ ایک مصنف کو دونوں پہلوؤں پر محنت کرنی چاہیے؛ تاکہ وہ اپنی تحریر کو مکمل اور مؤثر بنا سکے۔

اس کے ساتھ ہی اس امر کا اظہار بھی یہاں ضروری ہے کہ خیالات کی صحت اپنی جگہ لیکن ترسیل کے لیے زبان پرمکمل گرفت بھی ایک مصنف کے لیے ناگزیر ہے۔ خیالات درست ہیں لیکن زبان پر اگر قدرت نہیں تو حقِ ابلاغ ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے ایک مصنف کے لیے زبان پر مکمل گرفت اور اس کے مالہ وماعلیہ سے بتمام وکمال واقفیت ضروری ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ زبان وبیان پر اپنی گرفت مضبوط کرکے آج اپنے باطل خیالات ونظریات کو وہ حق کا لبادہ اڑھاکر ببانگ دہل پیش کر رہے ہیں اور سادہ لوح بلکہ نیم خواندہ لوگ بھی اس کی قدرتِ بیان پر سر دھن رہے ہوتے ہیں۔اس لیے خیالات کی صحت کے ساتھ زبان پر قدرت وکمال بھی ازحد ضروری ہے۔

  1. کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایک تحریر کو مکمل کرنے میں کئی مہینے لگے ہوں، محض اس لیے کہ دل مطمئن نہ ہو؟

کچھ بھی لکھنے میں وقت تو درکار ہوتا ہی ہے، میری بیشتر کتابیں کئی ماہ میں مکمل ہوئیں، بلکہ قاموس الخواتین کی تین جلدیں تو لاک ڈاون کے تین سالوں میں تکمیل پذیر ہوئیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہواکہ کئی ماہ کسی ایک موضوع پر خامہ فرسائی کی ہو اور پھر اس پر اطمینانِ قلب حاصل نہ ہواہو تو دوبارہ اس پر محنت کرنی پڑی ہو۔ میری تحریروں کے  ساتھ فضل الٰہی اور عنایت رسالت پناہی کا معاملہ زیادہ رہا ہے۔ کبھی کبھی تو میں حیران ہوجاتا تھا کہ میراموضوعِ نگارش کچھ ہوتاتھا اور کتاب کسی دوسرے موضوع کی پڑھ رہا ہوتاتھا مگر اس میں بھی میرے موضوعِ زیرتحریر سے متعلق مواد میسر آجاتا تھا، اسے میں اپنے رب کریم کا فضل اور اپنے آقا کی عنایت نہ کہوں تو کیا کہوں!۔

  1. قلم کے ذریعے آپ معاشرے میں کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟

ہرمصنف کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی نگارشات قوم کی تقدیر بدل ڈالے، ملت کے مسائل کی تحلیل کی راہ ڈھونڈ نکالے،اور اُمت کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کی کوئی ترکیب کر ڈالے؛ کیوں کہ قلم وہ طاقتور ہتھیار ہے جو ایک انسان کی زندگی میں سماجی، ثقافتی اور فکری انقلاب بپا کرسکتا ہے۔قلم کا اصل مقصد صرف لفظوں کی ساحری نہیں بلکہ رازِ حیات آشکار کرنے کا یہ ایک بہترین وسیلہ اور زندگی کو بہتر بنانے کا ایک حوصلہ بخش قرینہ ہے۔ بلاشبہہ اگرنیت مبنی براخلاص ہو اور سوچ کا قبلہ درست ہو تو قلم حال کی تابناکی،مستقبل کی رہنمائی اور دور جدید کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ہمارے عزائمِ نگارش بھی کچھ یہی تھے؛ لیکن ان کے ساتھ میں نے اپنی تحریروں کا رخ زیادہ تر نوجوانوں کی فکری تعمیر کی طرف رکھا، گوشۂ اطفال پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور بزمِ خواتین کی اصلاح پذیری پر زیادہ زور دیا اور بحمداللہ اپنے مقصدمیں بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔ میں نے ہمیشہ ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو اچھوتا اور دل چھوتا ہو، شاید یہی وجہ ہے کہ اچھوتے موضوعات پر قارئین کو جب کوئی کتاب میسر آتی ہے تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اورجی جان سے اس کے مطالعے میں لگ جاتےہیں۔

نوجوان اہلِ علم کے لیے رہنمائی

  1. نوجوانوں کو علم و تحقیق کی طرف مائل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار مؤثر ہو سکتا ہے؟

یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے  اور حقیقت یہ ہے کہ اگر آج کے نوجوانوں کو علم و تحقیق کی طرف مائل نہ کیا گیا، تو کل کا ہمارا مسلم معاشرہ فکری وتخلیقی طور پر بانجھ ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں کو تحقیق کی طرف لانے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق کو زندہ، بامعنی، دلچسپ، اور عزت دارانہ عمل بنایا جائے۔ انہیں بلاتکلف سوال کرنے، تلاش وتحقیق کرنے، اور تجربہ ومشاہدہ کرنے کی آزادی دی جائے۔اور سب سے بڑھ کر انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ ان کا علم دنیا میں ایک فرق ڈال سکتا ہے۔

امرواقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی کسی چیز کی طرف از خود مائل نہیں ہوتابلکہ اس کے کچھ اسباب وعوامل ہوتے ہیں۔ پچھلے اَدوار میں تصنیف وتالیف کے لیے سنہراماحول تھا، مصنف کی قدر وتحسین تھی، کتابوں کی خواندگی کا عام چلن تھا اورلوگ اپنے بڑوں کی قلمی مصروفیت وعلمی مشغولیت دیکھ کر خود کو اسی ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن آج کا ماحول یکسرمختلف ہے، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں، نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں۔

تاہم نوجوانوں کے سامنے اسلاف کے قیمتی کارنامے رکھے جائیں،  قلم کی شاہ جہانی بتائی جائے، تحریر کی افادیت کے مختلف پہلووں کو ان کے سامنے آشکار کیاجائے، ان کی علمی سطح کو دیکھتے ہوئے مباحثہ ومکالمہ کی محفلیں سجائی جائیں، تحقیقی منصوبے پیش کیے جائیں، ڈیجٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ سوال وجواب کی نشستیں رکھی جائیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی تحسین وحوصلہ افزائی کی جائے  تو اُمید ہے کہ خاکسترمیں دبی کوئی چنگاری باہر نکل آئے۔ ویسے اس سلسلے میں مخیرحضرات اور اہل مکتبہ نوآموز قلم کاروں کی مالی معاونت ، معاشی مسائل سے آزادی دلاکر نیز ان کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی کرکے اس سلسلے میں بڑا رول ادا کرسکتے ہیں۔

  1. کیا آج کے طالبعلم میں وہ تڑپ اور پیاس موجود ہے جو تحقیق کے لیے ضروری ہے؟

کسی چیز کی تڑپ، للک اور لگن از خود پیدا نہیں ہوتی بلکہ پیدا کی کرائی جاتی ہے اور اس کے لیے ماحول سازگار کیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ فطری خو بو لے کر آتے ہیں وہ مستثنیات میں ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نوجوانوں کے دلوں میں آج بھی کچھ سیکھنے، کچھ بڑا کرنے، دنیا کو سمجھنے اور تحقیق میں کچھ نیا تلاش کرنے کی آرزو پائی جاتی ہے؛لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بروقت انہیں ایسی راہنمائی، مشاورت، ماحول، اور تحریک نہیں ملتی جو ان کی اس آرزو کو شعلہ بنا دے۔ بلکہ میرا تووجدان کہتا ہے کہ اگر آج کے نوجوان کو سچے جذبے سے سکھایا اور ابھارا جائے تو وہ ماضی کے کسی بھی بڑے محقق سے کم نہیں ہو سکتا بلکہ شاید وہ ان نئے امکانات کی راہیں بھی کھول دے جو پہلوں پر بند تھیں!۔

لیکن بس کیا کہیے،آج ہمارے مدرسوں میں تعلیم کا افلاس، روحِ تربیت کا فقدان اور طلبہ کی حال ومستقبل سے بے خبری انھیں ایک باخبرعالم تو بنا ہی نہیں پاتی، پھر ان میں کبریتِ تحقیق ڈھونڈنا کسی بانجھ سے اولاد کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔ تاہم اگر طلبہ مدارس پرواقعی محنت کی جائے، خوشگوار ماحول بنایا جائے اور ان کے حال احوال سنوارے جائیں توکوئی بعید نہیں پھرانھیں میں سے کوئی سینا وفارابی ، رومی و رازی اور غزالی وسیوطی بن کر نکلے۔ لیکن یہ بڑا زہرہ گداز اور پتاماری  والا کام ہے اور وہی مردِ غازی کرسکتا ہے جس کے اندر سپیدۂ سحر دیکھنے کے لیے خونِ صدہزار انجم کردینے والی جگرتابی  موجود ہو۔

  1. آپ کی نظر میں ایک سچے محقق کے اندر کن اخلاقی صفات کا ہونا لازمی ہے؟

ایک سچے محقق کے لیے اخلاقی صفات ومثالی اوصاف سے متصف ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے؛ کیوں کہ تحقیق کا مقصد صرف معلومات کی ذخیرہ اندوزی ہی نہیں ہوتی  بلکہ سچائی کی تلاش، علم کی خدمت، اقدارِ دین کا فروغ اور قوم وملت کی صلاح وفلاح بھی اس کے عمومی مقاصدمیں شامل ہوتی ہے؛ اس لیے ایک سچے محقق کے لیے یوں تو بہت سے اَوصاف درکار ہیں؛ تاہم کچھ مرکزی صفات یہ ہونی چاہئیں: حزم واحتیاط، صبروتحمل، اخلاص وللہیت، دردِ اُمت، ادبِ اختلاف، علمی دیانت و  امانت داری، انصاف پسندی، تواضع و  انکساری، اوراحساسِ ذمہ داری وغیرہ۔

اختتامیہ: بصیرت افروز پیغام

  1. آخر میں "رازِ حیات” کے قارئین کے لیے آپ کا کوئی خاص پیغام — جو فکر کو بیدار کرے، قلم کو جھنجھوڑ دے، اور دل کو گرما دے؟

پہلے تو ’’رازِ حیات‘‘ کے اجرا  پر صمیمِ قلب سے ڈھیروں مبارکباد۔ پھر اس اولین شمارے کے ’’فہم دانش‘‘ کالم کے لیے مجھ ہیچ مداں کے انتخاب کے لیے  ہدیۂ تشکر وامتنان۔ یقینا میں کسی اعتبار سے اس قابل نہیں تھا؛ لیکن آپ کی مجلس ادارت ومشاورت نے نہ معلوم کیاسوچ کر انٹرویو کے لیے مجھے منتخب کیا، بہرحال! اللہ بس پردہ رکھے اور احباب کے حسنِ ظن کے مطابق مجھے فرمادے؛ ورنہ من آنم کہ من دانم۔

’’رازِ حیات‘‘ کے قارئین کے لیے پیغام یہی ہے کہ وہ رازِ حیات کو جاننے اورسراغِ زندگی کو پانے کی مومنانہ کوشش اور آبرومندانہ جتن کریں؛ کیوں کہ جسے اپنی ذات وحیات کا عرفان ہوجاتا ہے،  پھر اسے خالقِ کائنات کی معرفت بھی نصیب ہوجاتی ہے، اور خودشناسی سے خدا شناسی کی منزل بالکل لگی ہوئی ہے۔ معروف عربی مقولہ ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔  یاد رکھیں کہ علم کی راہیں آسان نہیں ہوتیں؛لیکن انہی راہوں پر ایسی کرنیں بکھرتی ہیں جو صدیوں کو زندہ کردیتی ہیں، قوموں کے بخت خفتہ کو جگادیتی ہیں،اور قلب و روح کو منبعِ انوار بناڈالتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ مخلص ہوکرتحصیل علم میں جٹ جائیں۔اور جب راہِ علم کے مسافر بن جائیں تو منزل کی تمنا نہ کریں، بس راستے سے محبت کریں، ایک دن راستہ ہی منزل بن جائے گا۔ یا یوں سمجھیں کہ علم کا سفر منزل تک نہیں رکتا بلکہ علم کا سفر انسان کو خود منزل بنادیتا ہے۔

نیز  دین کو  محض اللہ و رسول کی رضا کے لیے سیکھیں۔ تقویٔ خداوندی سے دل و دماغ کو معطر رکھیں، اس کی برکت سے ایک وقت آئے گاکہ علم لدنی کے در آپ پر وا ہوں گے اور ربانی سرچشموں سے آپ کو جرعۂ علم و کمال عطا کیا جائے گا۔ اور پھر اپنے علم کو رنگِ عمل دینے کی کوشش کریں کہ یہی مقصدعلم اور مقصودِ شرع ہے۔ اصل علم وہی ہے جس کو لبادۂ عمل پہنادیا گیا؛ ورنہ ناآشناے عمل علم بس ایک اضافی بوجھ ہے جسے انسان زندگی بھراپنے کاندھے  پر ڈھوتا پھرتا ہے۔ علم پر عمل کی برکت یہ ہوگی کہ  اللہ  آپ کو نامعلوم علوم کا وارث وامین بنا دے گا۔

 تیسرے یہ کہ لوح وقلم سے اپنا مخلصانہ تعلق اُستوار رکھیں۔ دنیاچاہے جتنی ترقی کرجائے، اور سائنس وٹکنالوجی چاہے معراجِ کمال تک پہنچ جائیں؛ لیکن کتاب وقلم کی اہمیت وافادیت مسلم رہے گی۔ لوگ کہتے ہیں ’’یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق ہے ‘‘ لیکن یہ بالکل فضول بات ہے، ہر دور کتاب کا دور رہے گا، نون والقلم کی فتوحات اور الکتاب کی تابانیاں ہر عہد کی پیشانی کو جگمگاتی رہیں گی۔

وقتی طور پر کوئی انقلاب آجائے تو اس سے حقیقت بدل نہیں جایا کرتی، حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے اور کتاب وقلم یہ وہ زندہ حقیقتیں ہیں جن کی تابانیوں کو  زمانے کے ہزاروں انقلابات بھی مل کر مدھم نہیں کرسکتے۔ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ کل جن چیزوں کو ہم نے ناکارہ اور آؤٹ ڈیٹیڈ  سمجھ کر کتابِ زندگی سے باہر کردیا تھا آج خواہی نخواہی ہم انھیں لازمۂ حیات بنانے پر مجبور ہیں۔ روزمرہ کی زندگی سے اس کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

یوں ہی چیٹ جی ٹی پی، گروک، اے آئی اور چیٹ جیمینائی وغیرہ کی ایجاد واختراع سے کوئی یہ سمجھ لیے کہ کتاب کی افادیت یا قلم کی شہنشاہیت ختم ہوجانے والی ہے تو یہ اس کی خام خیالی اور نری مرعوبیت ہوگی۔ ہردور کتاب وقلم کا مرہون منت رہے گا، بلکہ اگر گہرائی میںٰ اترکر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ یہ سب کتاب وقلم کا اُترن ہی ہے جو آج ماڈرن سائنس وٹکنالوجی کے ماتھے کا جھومر بنا ہوا ہے۔

’’رازِ حیات‘‘ کے قارئین پر ایک بھید اور کھول دوں اور اپنا ایک ذاتی تجربہ شیئر کردوں کہ  تعلیم کے آخری اور تدریس کے ابتدائی ایام ہی میں جن علمی وفکری کام کا تانا بانا بن سکتے ہیں، بن لیں ؛ کیوں کہ اس وقت آپ کےپاس ہرطرح کی توانائی و فارغ البالی ہوتی ہے، اور پھر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتاہےطومار کار وکثرتِ افکار ایسے دامن گیرہوتے ہیں کہ انسان کے لیے ان سے خلاصی جان امردشوار بن جاتا ہےاور پھر کفِ افسوس    ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ آج میں خود اس دور سے گزر رہاہوں؛ اس لیے عزیز طلبہ کے لیے یہاں  اسے شیئر کردینا مناسب سمجھا۔

 مذکورہ بالا بات کہنے کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ ہم میں بہت سوں کا معاملہ -اِلا ماشاء اللہ- یہ ہے کہ وہ پوری زندگی خود کو ’ناقص‘ ہی تصور فرماتے رہتے ہیں، اور نتیجے میں کچھ نہ کرکے بالآخر داغِ حسرت لیے آخرت کو سدھار جاتے ہیں؛ حالاں کہ اپنی بے پایاں لیاقتوں اور علم و تجربات کے سیل بے کراں سے ایک زمانے کو مستفیض کرنے کی اُن میں صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اِس طرح وہ آنے والی نسلوں کو اپنے عظیم سرمایۂ فضل وکمال سے محروم کر جاتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ساری زندگی خود کو اِحساسِ کمتری کے آہنی حصار سے باہر ہی نہیں نکال پاتے؛ بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کچھ دوسرے کمزور عزم لوگ اُن کے ہتھّے چڑھ جائیں تو انھیں بھی اپنے حصار کے اندر کھینچنے میں پوری چابک دستی کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔ اس طرح یہ بلاے بے درماں -جو دراصل منفی سوچ کا شاخسانہ ہوتی ہے- بڑھاپے تک اُن کے تعاقب میں لگی رہتی ہے، اور ہر تعمیری وتخلیقی کاژ کے بیچ حد فاصل بن جاتی ہے۔          

کاش! انھیں کوئی بتا دیتا کہ ’کامل‘ تو بس ایک ہی ذات ہوئی ہے اور وہ ہے ذاتِ رسول مقبول ﷺ، باقی کسی کو درجۂ کمال کہاں نصیب!؛ لہٰذا اِعترافِ ’نقص‘ کے ساتھ ہی اِنسان جتنا کچھ کرسکتا ہے کرلے کہ شاید یہی اُس کے لیے توشۂ آخرت اور سرمایۂ بخشش بن جائے۔ بقولِ شاعر   ؎

      لئن لم یعظ العاصین من ھو مذنب  ۰۰۰   فمن  یعظ العاصین بعد محمَّد !

یعنی اگرایک خطاکار کو یہ حق نہیں کہ وہ گنہ گار بندوں کو وعظ ونصیحت کرے تو پھر مجھے بتایاجائے کہ محمد عربی ﷺکے بعد گنہ گاروں کو نصیحت کرنے کا جواز کس کے پاس ہے؟ (کیوں کہ آپ کے علاوہ نقص وخطا سے پاک ہونے کا دعویٰ توکوئی کرہی نہیں سکتا!)۔

یاد رکھیں کہ مثبت افکار وخیالات ہی اِنسان کی کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں؛ لہٰذا مشورہ یہی ہے کہ مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے چھٹکارا پائیں۔ تجربات شاہد ہیں کہ مثبت سوچ نے ناممکن کو ممکن بنادیا ہے۔ دین، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں مثبت سوچ ہی کی مرہونِ منت ہیں، اورتمام ناکامیوں کی تہہ میں کہیں نہ کہیں منفی سوچ ہی کی کارستانی دکھائی دیتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اِنسان کے جملہ اَعمال و اَفعال میں سوچ کی حیثیت وہی ہے جو مکان کی تعمیر میں نقشہ کی ہوتی ہے۔ لہٰذا جیسا نقشہ  ویسا مکان، اورجیسی سوچ ویسا اِنسان۔ اللہ بس ہمارے حال پر کرم فرمادے۔آمین

اے صاحبانِ ’’رازِ حیات‘‘! اٹھیں، سوچیں اورلکھیں کہ آپ کے قلم سے حیات کی نئی تعبیر پھوٹ سکتی ہے اور

آپ  وہ انقلابی نسل ہیں جو پرانی دیواروں میں نئے دریچے کھولنے کی صلاحیت سے بہرہ یاب  ہیں۔ میری دعائیں آپ سب کے ساتھ ہیں۔ اللہ آپ کی سوچوں کو حکمت عطا کرے، آپ کے قلم کو سچائی کی روشنائی دے، اور آپ کے سفر کو اپنے نور سے معمورفرما دے!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مدیر اعلی کا تعارف

میں علم و ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں، جسے قلم سے نسبت اور دین سے محبت ہے۔ رازِ حیات میری ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ فکرو نظر کی دنیا میں سچائی، سادگی اور شعور کا رنگ شامل کیا جا سکے۔ شاہد نعمانی مصباحی

Razehayat©2025 All rights reserved